بنگلہ دیش میں طلبہ کے زور پر بنائی گئی عبوری حکومت جس کی مدت پر آئین بھی خاموش ہے

بنگلہ دیش میں طلبہ کے زور پر بنائی گئی عبوری حکومت جس کی مدت پر آئین بھی خاموش ہے

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگدلہ دیش میں ایک عوامی بغاوت اور شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں یہ نظام قائم ہوا تاہم ایسا حکومتی ڈھانچہ آئین میں کہیں نہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بنگلہ دیش میں محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ یہ حکومت کب تک برسر اقتدار رہے گی۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کا آئین یا کوئی قانون عبوری حکومت اور اس کی مدت کے بارے میں خاموش ہے۔

سنیچر کے روز نئی حکومت کے مشیر برائے قانون پروفیسر آصف نذر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عبوری حکومت اس وقت تک رہے گی جب تک الیکشن کمیشن سمیت مختلف شعبوں میں اصلاحات نہ کر لی جائیں۔‘

گذشتہ دو دن کے دوران اس نئی ​​حکومت کے دو اور مشیروں نے بھی یہ ہی بات کی لیکن عبوری سیٹ اپ کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عوامی بغاوت اور شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں یہ نظام قائم ہوا تاہم ایسا حکومتی ڈھانچہ آئین میں کہیں نہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

وکیل بیرسٹر جیوترموئے باروا نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ (عبوری کابینہ) محسوس کریں گے کہ شفاف انتخابات کے لیے ماحول تیار ہے تو وہ انتخابات کا اعلان کریں گے۔ اس سے پہلے اس حکومت کی مدت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔‘

’ملک میں اصلاحات کو اب زیادہ اہمیت دی جائے گی‘
شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے بعد بنگلہ دیش میں تین دن تک کوئی حکومت نہیں تھی۔ پروفیسر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے مشیروں نے گزشتہ جمعرات کی شب حلف اٹھایا۔

صدر نے جمعرات کو اس عبوری حکومت کی تشکیل پر سپریم کورٹ کے اپیلٹ ڈویژن سے رائے طلب کی اور چیف جسٹس عبید الحسن کی سربراہی میں اپیلٹ ڈویژن نے عبوری حکومت کی تشکیل کے حق میں رائے دی۔

بنگلہ دیش کے موجودہ آئین میں نگراں یا عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

آئین کے آرٹیکل 123 (3) (b) کے مطابق اگر پارلیمنٹ اپنی مدت ختم ہونے کے علاوہ کسی اور وجہ سے تحلیل ہو جاتی ہے تو انتخابات اگلے 90 دن کے اندر کروائے جائیں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تمام معاملات میں اصلاحات کے ذمہ دار سیاسی رہنما تھے لیکن اسی وجہ سے تو ایسی صورتحال پیدا ہوئی۔

تجزیہ کار محی الدین احمد نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب زیادہ اہمیت اصلاحات کو دی جائے گی اور اس کے لیے وقت لیا جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts